سال 1975ء میں مجھے مملکت سعودی عرب میں شہر جدہ میں بہترین جاب مل گئی اور میں بمعہ فیملی پاکستان سے جدہ منتقل ہوگیا۔ میری بیگم صاحبہ جو کہ پہلے ہی ایک مثالی خاتون خانہ تھیں نے گھر کو اللہ پاک کی رحمت سے جنت نظیر بنادیا۔ میرے دل کی باتیںبوجھتی تھیں۔ حتیٰ کہ زندگی میں کئی مرتبہ رات کو دوران نیند ہم دونوں نے ایک ہی خواب دیکھا وقت بہت اچھا گزر رہا تھا۔ گزر کیا رہا تھا بلکہ وہ تو ایک تیز رفتار پنچھی کی طرح اچانک ہی اُڑن چھو ہوگیا۔ ہوا یوں کہ 27 مئی 1999ء کو اسے گھر میں برین ہیمرج ہوگیا۔ بے حد مہنگا علاج کروایا مگر آخر کار 19 جون 1999ء کو شام کے وقت گھر کے اندر اپنی معصوم چھوٹی بیٹی کی آغوش میں اس کی روح قفس عنصری سے پرواز کرگئی۔ ہم پر غم و اندوہ کے پہاڑ ٹوٹ پڑے ہمیں تو کچھ ہوش نہ رہا تھا بس ہماری بلڈنگ کے ہمسایوں نے پوری دنیا میں اطلاعات کردیں۔
اب اللہ پاک نے میرے دل میں بات ڈال دی کہ میں مکہ پاک میں تدفین کی کوشش کروں۔ میت کو تو ہم نے سعودی قانون کے مطابق مقامی سرکاری ہسپتال کے مردہ خانہ میں جمع کروا دیا۔ اگلے روز ہم نے مکہ شریف میں تدفین کااجازت نامہ حاصل کرنے کی جدوجہد شروع کردی۔ مگر نہ صرف ہمیں کوئی کامیابی حاصل نہ ہوئی بلکہ ہر جگہ ہمیں یہ بتایا گیا کہ سعودی عرب کی حکومت نے حرمین شریفین کے دونوں شہروں میں دوسرے شہروں سے جنازے لاکر دفنانے پر شدید پابندی عائد کررکھی ہے۔ خاص طور پر غیر ملکی افراد کیلئے قطعاً کوئی اجازت نہیں ہے۔ وہ پورادن ہمارا ضائع چلا گیا۔ لیکن ایک امید تھی جس وجہ سے ہم اگلی صبح پھر دوڑ دھوپ شروع کردی مگر دوپہر تین بجے تک میں بالکل مایوس وچکا تھا اور میت کو پاکستان لے جانے کا پروگرام بنانا شروع کردیا تھا۔ اس وقت کسی کام کے سلسلے میں ہمیں اس ہسپتال جانا پڑا جس کے مردہ خانہ میں بیگم مرحومہ کی میت رکھی تھی۔ مردہ خانہ کے مصری انچارج کو میں نے بتایا کہ میں اپنی مرحومہ بیوی کو مکہ المکرمہ میں دفن کرنا چاہتا ہوں۔ اس وقت وہاں پر ایک اور شخص بھی موجود تھا جو ہماری گفتگو سن رہا تھا۔ اس شخص نے مجھے کہا کہ اگر واقعی آپ یہی چاہتے ہیں تو میں آپ کو اس کا اجازت نامہ بناکر دیتا ہوں۔ یہ کہہ کر اس نے ایک فارم کی پانچ کاپیاں پُر کیں۔ ایک نقل اس نے اپنے پاس رکھی اور چار نقول مجھے تھمادی۔ اس شخص نے جو کہ یقیناً حکومت کا کوئی بااختیار افسر تھا ہمارے لئے مگر رحمت کا فرشتہ تھا مجھے ضروری بتاتیں سمجھائیں اور ہدایت کی کہ نماز عصر پڑھ کر یہیں اسی جگہ پر آجائیں۔ حرم مکی میں جنازہ کے لئے تیار میت سرکاری ایمبولینس میں موجود ملے گی۔ اور تدفین قبرستان جنت المعلاء میں ہوگی۔ ہم فوراً گھر آئے۔ نماز عصر کے بعد گاڑیوں میں ہسپتال پہنچے۔ میت سمیت ایمبولینس مکہ مکرمہ روانگی کے لیے تیار تھی۔ نماز مغرب سے آدھ گھنٹہ قبل ہم سب حرم شریف کے اندر تھے۔ میری زندگی میں پہلی مرتبہ اور آخری مرتبہ بڑا ہی انوکھا اندازِ دلبربائی دکھایا ممتاز بیگم صاحبہ نے!کہاں ماضی کی وہ اڑھائی دہائیاں جب وہ میرے ہمراہ اسی حرم پاک کے اندر لپک لپک کر طواف، نمازیں، عمرے اور حج ادا کیا کرتی۔ بیت اللہ شریف کے سامنے بیٹھ کر ایسی ایسی طویل دعائیں کرتی کہ رو رو کر بے حال ہو جاتی اور کہاں آج یہ نشانِ نزول کہ ہمارے شانوں پر سوار ہوکر صحن کعبہ میں اُتریں۔نماز مغرب امام کعبہ فضیلت مآب حضرت الشیخ عبدالرحمن السدیس نے پڑھائی۔ نماز جنازہ بھی انہوں نے ہی پڑھائی۔ ہزاروں بندگانِ خدا نے نماز جنازہ پڑھی۔ سبحان اللہ بیگم صاحبہ کا جنازہ ‘نماز جنازہ کے لئے دیوارِ کعبہ اور مقام ابراہیم کے درمیان رکھا گیا یعنی کہ دیوار کعبہ اور بیگم صاحبہ کے جنازہ کے درمیان دوسری کوئی چیز حائل نہ تھی۔ قبرستان جنت المعلاء میں پہنچے تو وہاں کے عملہ نے ہمیں آگے بھیج دیا۔ آگے ایک بہت وسیع و عریض چار دیواری آگئی جس کا سبز رنگ کا ایک آہنی مقفل گیٹ تھا۔ اس بڑی چار دیواری کے اندر وہ قدیم اصل قبرستان جنت المعلاء واقع ہے جس میں آل
ابراہیم علیہ السلام، آل اسماعیلؑ علیہ السلام، آل بنو ہاشم حتیٰ کہ متولی خانہ کعبہ حضرت عبدالمطلب جیسے خاندانِ نبوت کے تمام آفتاب و ماہتاب محو استراحت ہیں۔ وہ بڑا گیٹ کھول دیا گیا اور ہم احاطہ خاص کے اندر داخل ہوگئے۔ اندھیرا پڑ چکا تھا۔ آگے ایک جگہ پر ایمرجنسی لائٹ نظر آرہی تھی۔ ہمیں بتایا گیا کہ وہ ممتاز بیگم کی قبر ہے۔ ہم وہاں پہنچے میت کو پیوند خاک کردیا اور قبر بند کردی گئی۔ دعا کرکے جب ہم واپس پلٹنے لگے تو ایک واقعہ ہوا۔ حرم شریف میں نماز جنازہ کے بعد جب جنازہ اٹھایا گیا تو جنازہ کو کندھا دینے والے بے شمار لوگ تھے جو کہ راستہ میں کم ہوتے گئے۔ آخر میں ہم چند لوگ ہی رہ گئے تھے۔ لیکن ایک انجان عرب باشندہ جو کہ حرم شریف سے ہی جنازہ کے ساتھ ساتھ رہا بلکہ سب سے زیادہ کندھا اُسی نے دیا۔ میں اسے نہیں جانتا تھا لیکن اس کی ہمدردی پر حیران تھا وہ تدفین کے بعد میرے پاس آیا۔ خالص عرب روایت کے مطابق میرے کندھے پر ہمدردی اور محبت بھرا ہاتھ رکھا اور تہہ دل سے میرے ساتھ اظہار تعزیت کیا اور بتایا کہ یہ اصل قبرستان جنت المعلاء ہے۔ اب اس کے اندر تدفین پر مکمل پابندی ہے لیکن شاہ فہد بن عبدالعزیز کا حکم ہے کہ ہر پانچ سال بعد سبیل کے طور پر ایک دن تھوڑے وقت کے لئے یہ گیٹ کھول دیا جائے۔ اس دوران جس کسی خوش نصیب کی میت آجائے اُسے اندر دفن کردیا جائے اور پھر فوراً گیٹ آئندہ پانچ برس تک کے لیے بند کردیا جائے۔ پھر اس شخص نے مجھے دکھایا کہ وہ سامنے اُم المومنین حضرت خدیجہ الکبریٰ ؓ کی قبر مبارک ہے۔ پھر اس نے مجھے مبارکباد دی کہ آپ کو مبارک ہو کہ آپ کی زوجہ کی قبر زوجہ مطہرۂ رسولﷺ کی قبر مبارک کے اتنا قریب ہے۔ اس وجہ سے میں گناہ گار سیاہ کار اپنے نواسوں نواسیوں کو کہا کرتا ہوں کہ حسنین کریمیں رضی اللہ عنہم اجمعین کی نانی اماںؓ رضی اللہ عنہا اور تمہاری نانی اماںؒ پڑوسنیں ہیں‘ تم کتنے خوش نصیب ہو۔2015ء میں بندہ اپنے تمام بچوں سمیت زیارت کیلئے حاضر ہوا تھا۔ وہاں پر تعینات عملہ نے بتایا کہ پچھلے سات برس سے نہ کبھی گیٹ کھلا ہے نہ اندر کوئی تدفین ہوئی ہے۔ یہ تو خوش نصیب ممتاز بیگم صاحبہ تھیں جنہیں اللہ پاک نے اس مقرر مختصر وقت میں وہاں پہنچا دیا تھا۔ پہنچی وہیں پہ خاک جہاں کا خمیر تھا۔ انہوں نے اکیاون سال کی عمر پائی۔ بیگم صاحبہ کے اس حد تک ناقابل یقین، عظیم الشان اور متبرک انجام حیات پر اللہ تعالیٰ کے بڑے بڑے برگزیدہ لوگ مجھ سے پوچھتے تھے کہ آپ
کی بیگم صاحبہ زندگی بھر ایسا کون سا عمل کرتی رہی ہیں جس کا یہ اجر و انعام پایا؟ میں نے ان کو بتایا کہ بس سیدھی سادی خاتون خانہ تھیں۔ نماز روزہ اور تلاوت کی پابند تھیں۔ امانت، دیانت اور سچائی میں اپنی مثال آپ تھیں۔ شرم و حیا اور پردہ میں ضرب المثل کا درجہ رکھتی تھیں۔ ہر ذی روح یہی سمجھتا تھا کہ بی بی سب سے زیادہ مجھے چاہتی ہیں۔ ان کی وفات پر پاکستان، انڈیا، بنگلہ دیش، سعودی عرب، یمن، برطانیہ اور امریکہ میں صف ماتم بچھ گئی۔ بیگم صاحبہ کے ادبی ذوق کی عکاسی ان کی بیاض کے مندرجہ ذیل دو اشعار سےہوتی ہے۔
شہید حق کی لاش پر اتنا نہ روئیے ان آنسوئوں کا کیا کرے جو منہ لہو سے دھوچکا
ہمارا خون بھی شامل ہے تزئین گلستان میں ہمیں بھی یاد کرلینا چمن میں جب بہار آئے
(راوی: پرنسپل (ر) غلام قادر ہراج‘ جھنگ صدر)
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں